بحر الکاہل کے نیچے پراسرار زون کی دریافت: زمین کے ماضی کا نیا راز

Reading Time: 2 minutes

حالیہ تحقیق میں Geoscientists نے بحر الکاہل کے نیچے ایک پراسرار Subduction Zone دریافت کیا ہے جس نے زمین کے اندرونی ڈھانچے کے بارے میں ہماری فہم کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ دریافت East Pacific Rise نامی علاقے میں ہوئی، جو ایک tectonic plate boundary ہے اور وہاں ایک قدیم سمندری تہہ زمین کی اندرونی سطح میں دھنس چکی ہے۔ اس تہہ کی دریافت نے سائنسدانوں کو تقریباً 250 ملین سال پرانے سمندری فرش کے باقیات کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا، جو زمین کے ماضی میں ہونے والی سرگرمیوں کا ایک نیا نظریہ فراہم کرتا ہے۔

A map of the East Pacific

Subduction کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب ایک tectonic plate دوسری پلیٹ کے نیچے دھنس جاتی ہے، جس سے سطحی مواد کو زمین کے mantle میں دوبارہ شامل کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ دریافت زیادہ منفرد اس لیے ہے کہ یہ تہہ زمین کے اندرونی حصے، یعنی mantle transition zone میں ایک بہت گہرائی میں پائی گئی ہے، جو تقریباً 410 سے 660 کلومیٹر کی گہرائی میں واقع ہے۔

یہ دریافت seismic imaging کی مدد سے ممکن ہوئی، جو زمین کے اندرونی ڈھانچے کو CT scan کی طرح دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ Dr. Jingchuan Wang اور ان کی ٹیم نے یہ معلوم کیا کہ یہ تہہ اپنے اندر زیادہ ٹھنڈا مواد رکھتی ہے، اور اس کے حرکت کرنے کی رفتار بھی توقع سے آدھی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ mantle transition zone مواد کی حرکت کو سست کر دیتی ہے۔

یہ تحقیق نہ صرف زمین کے اندرونی ڈھانچے کے بارے میں نئے سوالات پیدا کرتی ہے بلکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ یہ قدیم subducted slabs زمین کی سطح پر آنے والے volcanoes اور earthquakes جیسے واقعات پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، یہ نئی معلومات زمین کے ساتھ ساتھ دیگر سیاروں کے جغرافیائی عمل کو سمجھنے میں بھی مدد کر سکتی ہیں۔

یہ دریافت University of Maryland کے محققین کی طرف سے کی گئی اور ان کے نتائج Science Advances نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت زمین کے اندرونی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے، اور یہ اس بات کا آغاز ہے کہ زمین کے ماضی کے بارے میں اور کتنی نئی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

انصار عادل شاہ

حوالہ جات: Sci.News, Eco Magazine

یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *