دریائے سندھ ڈیلٹا (Indus River Delta) اور بحیرہ عرب (Arabian Sea) کے مینگرووز دنیا کے سب سے بڑے اور اہم ترین خشک آب و ہوا کے مینگرووز (arid climate mangroves) میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، خصوصاً سندھ کے ساحلی خطے میں، جہاں دریائے سندھ کا پانی بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ مینگرووز کے جنگلات مقامی ماحول اور سمندری حیاتیات کے لیے بے حد اہم ہیں کیونکہ یہ ساحلی کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور سمندری مخلوقات کی افزائش نسل کے لیے قدرتی پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔
دریائے سندھ ڈیلٹا کا رقبہ تقریباً 600,000 ہیکٹر پر محیط ہے، اور یہ پاکستان کی ساحلی پٹی کا اہم حصہ ہے۔ یہ ڈیلٹا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مینگرووز کی سب سے بڑی پٹیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ علاقے نمکین پانی اور مٹی کے گدلے میدانوں پر مشتمل ہیں، جو دریائے سندھ کے ساتھ آنے والے کیچڑ اور ریت کے جمع ہونے سے بنے ہیں
یہ خطہ گرم اور خشک آب و ہوا کی وجہ سے بہت زیادہ نمکیات (salinity) کا شکار ہوتا ہے، جہاں درجہ حرارت گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ جولائی سے ستمبر تک مون سون بارشیں ہوتی ہیں، جن کی اوسط 100 سے 500 ملی میٹر تک ہوتی ہے
مینگرووز اس نمکین ماحول میں اگنے کے لیے انتہائی خاص جڑوں کا نظام رکھتے ہیں، جو ان درختوں کو نمکین پانی اور انکسیجن کی کمی کے باوجود زندہ رہنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
نباتات (Flora)
مینگرووز کی نباتات میں بنیادی طور پر ایویسینیا مارینا (Avicennia marina) پائی جاتی ہے، جو کہ سب سے زیادہ نمکین پانی کو برداشت کرنے والی قسم ہے اور یہاں کے تقریباً 95% جنگلات اسی قسم پر مشتمل ہیں۔ دیگر اقسام میں ریزوپورا (Rhizophora mucronata) اور سیریوپس ٹیگل (Ceriops tagal) شامل ہیں، جو کم نمکین علاقوں میں پائی جاتی ہیں
مینگرووز کے درختوں کی جڑیں پانی سے اوپر کی طرف نکلتی ہیں، جنہیں پنیومیٹوفورز (pneumatophores) کہا جاتا ہے، جو انہیں ہوا سے آکسیجن حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ درخت سمندری طوفانوں اور لہروں سے ساحلی علاقوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حیوانات (Fauna)
مینگرووز کے جنگلات مختلف قسم کی سمندری اور خشکی کی حیات کے لیے پناہ گاہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ علاقے مچھلیوں، کیکڑوں اور دیگر سمندری مخلوقات کے لیے افزائش نسل کے قدرتی مراکز ہیں۔ سمندری حیات کے علاوہ، یہاں بہت سی پرندوں کی اقسام بھی پائی جاتی ہیں، جن میں گریٹر فلیمنگو (Greater Flamingo) اور ڈالمیشن پیلکن (Dalmatian Pelican) شامل ہیں
خشکی کے جانوروں میں جنگلی بلیاں (Fishing Cats)، سنہری گیدڑ (Golden Jackals) اور ہموار بالوں والے اوٹر (Smooth-coated Otters) شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، یہ علاقے مہاجر پرندوں کے لیے بھی اہم ہیں، جہاں ہر سال ہزاروں پرندے آتے ہیں
خطرات (Threats)
مینگرووز کے جنگلات کو مختلف خطرات لاحق ہیں، جن میں آلودگی (pollution)، سمندر میں تیل کے رساو (oil spills)، اور درختوں کی کٹائی شامل ہیں۔ کراچی جیسے صنعتی شہروں کی آلودگی ان جنگلات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی میں کمی اور زمین کے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہاں نمکیات کا اضافہ ہو رہا ہے، جو ان جنگلات کی بقا کے لیے خطرہ بن رہا ہے
ماحولیاتی تبدیلی (Climate Change) اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے ساحلی علاقوں کو شدید کٹاؤ کا سامنا ہے، جو مینگرووز کے علاقوں کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔
حفاظت اور بحالی (Preservation)
مینگرووز کی بقا اور ان کی حفاظت کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں WWF اور دیگر ماحولیاتی تنظیمیں مینگرووز کی بحالی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومتی سطح پر بھی کئی ماحولیاتی تحفظ کے علاقے (Marine Protected Areas) بنائے گئے ہیں تاکہ مینگرووز کی کٹائی اور آلودگی سے بچاؤ ممکن ہو سکے
یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کے لیے ضروری ہیں بلکہ ساحلی معیشت کی بقا اور مقامی لوگوں کے روزگار کے لیے بھی اہم ہیں۔
دریائے سندھ ڈیلٹا اور بحیرہ عرب کے مینگرووز نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ نہ صرف ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ سمندری حیات کے لیے بھی قدرتی پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ان جنگلات کو لاحق خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی بقا کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے یہ قدرتی خزانے محفوظ رہ سکیں۔
وقاص مصطفیٰ
حوالہ جات: One Earth , Springer , NASA
یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔