پروکسیما سینٹوری (Proxima Centauri) ایک سرخ بونا ستارہ ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے (Milky Way) کے قریب ترین ستاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ستارہ سورج (Sun) کے بعد زمین سے سب سے قریبی ستارہ ہے، جو صرف 4.24 نوری سال (Light Years) کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی دریافت نے فلکیات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، کیونکہ یہ ستارہ اور اس کے گرد گردش کرنے والے سیارے ممکنہ طور پر زندگی کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 1915 میں اسکاٹش ماہر فلکیات رابرٹ انیس (Robert Innes) نے پروکسیما سینٹوری کی دریافت کی، جو آج فلکیات میں ایک اہم موضوع بحث ہے۔
پروکسیما سینٹوری کا مقام (Location of Proxima Centauri)
پروکسیما سینٹوری، الفا سینٹوری نظام (Alpha Centauri System) کا حصہ ہے، جو زمین سے قریبی ترین ستاروں کا ایک نظام ہے۔ الفا سینٹوری A اور B اس نظام کے بڑے ستارے ہیں، جبکہ پروکسیما سینٹوری اس نظام کا سب سے چھوٹا اور کمزور ستارہ ہے۔ اس ستارے کا فاصلہ زمین سے 4.24 نوری سال ہے، جو فلکیاتی پیمانے پر ایک مختصر فاصلہ ہے، لیکن انسانی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ابھی بھی بہت دور ہے۔
نوری سال (Light Year) ایک ایسا فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، یعنی تقریباً 9.46 کھرب کلومیٹر۔ اس حساب سے، پروکسیما سینٹوری کا فاصلہ تقریباً 40 ٹریلین کلومیٹر بنتا ہے۔
پروکسیما سینٹوری کی جسمانی خصوصیات (Physical Characteristics of Proxima Centauri)
پروکسیما سینٹوری ایک M-class سرخ بونا ستارہ (Red Dwarf Star) ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورج کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ اس کی کمیت (Mass) سورج کی کمیت کا تقریباً 12 فیصد ہے، اور اس کا درخشندگی (Luminosity) سورج کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے یہ ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔
اس ستارے کی سطح کا درجہ حرارت (Surface Temperature) تقریباً 3,000 کیلون ہے، جو سورج کے مقابلے میں بہت کم ہے (سورج کا سطحی درجہ حرارت تقریباً 5,778 کیلون ہے)۔ اسی وجہ سے پروکسیما سینٹوری ایک ٹھنڈا ستارہ ہے اور اس کی روشنی بھی دھیمی ہوتی ہے۔
پروکسیما بی (Proxima b): زمین جیسا سیارہ (Earth-like Exoplanet)
2016 میں، فلکیاتی ماہرین نے پروکسیما سینٹوری کے گرد ایک سیارہ دریافت کیا، جسے پروکسیما بی (Proxima b) کا نام دیا گیا۔ پروکسیما بی ایک زمین جیسا سیارہ (Earth-like Planet) ہے، جس کی کمیت تقریباً زمین کے برابر ہے۔ یہ سیارہ اپنے ستارے کے قابل رہائش زون میں موجود ہے، جو وہ خطہ ہے جہاں درجہ حرارت اس قابل ہوتا ہے کہ پانی مائع حالت میں رہ سکے، جو زندگی کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔
پروکسیما بی کی سطح پر ممکنہ مائع پانی کی موجودگی اور اس کے ستارے سے مناسب فاصلے پر ہونے کی وجہ سے، سائنسدان اس سیارے پر زندگی کے امکانات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ تاہم، پروکسیما سینٹوری کی شدت پسندانہ فلیئرز (Flares)، جو کہ ستارے کی سطح پر توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے ہوتی ہیں، پروکسیما بی کی فضا اور ممکنہ زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
Related more: کیا یہ سفید بونے ستارے کا سیارہ زمین کے مستقبل کی جھلک ہے؟
پروکسیما سینٹوری کی فلکیاتی اہمیت (Astronomical Significance of Proxima Centauri)
پروکسیما سینٹوری کی دریافت نہ صرف اس وجہ سے اہم ہے کہ یہ ہمارے قریب ترین ستاروں میں سے ایک ہے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس ستارے کے گرد ایک قابل رہائش سیارہ پایا گیا ہے۔ سائنسدان پروکسیما بی پر زندگی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے گرد مزید سیارے دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پروکسیما سینٹوری کے مطالعے نے ہمیں سرخ بونا ستاروں کی خصوصیات اور ان کے گرد موجود سیاروں کے ماحول کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی ہیں۔
سرخ بونا ستارے کائنات کے سب سے زیادہ پائے جانے والے ستارے ہیں اور یہ ستارے نسبتاً طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں، جس سے ان کے گرد موجود سیاروں پر زندگی کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
پروکسیما سینٹوری تک پہنچنے کے چیلنجز (Challenges of Reaching Proxima Centauri)
پروکسیما سینٹوری کا فاصلہ فلکیاتی لحاظ سے قریب ہے، لیکن موجودہ انسانی ٹیکنالوجی کے لیے یہ بہت دور ہے۔ موجودہ خلائی جہازوں کے ذریعے پروکسیما سینٹوری تک پہنچنے میں لاکھوں سال لگیں گے۔ مثال کے طور پر، وائجر 1 (Voyager 1)، جو اب تک کا سب سے دور جانے والا انسانی خلائی جہاز ہے، اگر اس رفتار سے پروکسیما سینٹوری کی طرف روانہ کیا جائے، تو اسے وہاں پہنچنے میں تقریباً 73,000 سال لگیں گے۔
تاہم، جدید سائنسی منصوبے جیسے کہ بریک تھرو اسٹار شٹ (Breakthrough Starshot) اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہلکے وزن کے خلائی جہازوں کو لیزر (Laser) کے ذریعے روشنی کی رفتار کے قریب تک پہنچایا جا سکے، جس سے پروکسیما سینٹوری تک پہنچنے کا وقت کم کیا جا سکے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ ممکن ہو گا کہ ہم اگلی چند دہائیوں میں پروکسیما سینٹوری تک پہنچ سکیں۔
پروکسیما سینٹوری کے فلیئرز اور ان کے اثرات (Flares of Proxima Centauri and Their Effects)
پروکسیما سینٹوری ایک فعال ستارہ ہے، جس سے وقتاً فوقتاً فلیئرز (Flares) نکلتے ہیں۔ یہ فلیئرز ستارے کی سطح پر توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے ہوتے ہیں، جو اس کی روشنی کو چند لمحوں کے لیے بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ پروکسیما سینٹوری کے فلیئرز اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے گرد موجود سیاروں کی فضا کو متاثر کر سکتے ہیں۔
پروکسیما بی پر ان فلیئرز کے اثرات خاص طور پر دلچسپ ہیں، کیونکہ اگرچہ یہ سیارہ قابل رہائش زون میں ہے، لیکن ان فلیئرز کی وجہ سے اس کی فضا میں ممکنہ زندگی کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پروکسیما سینٹوری کے فلیئرز سیارے کی فضا کو تحلیل کر سکتے ہیں اور وہاں موجود پانی کو بخارات میں تبدیل کر سکتے ہیں، جس سے زندگی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
پروکسیما سینٹوری کی مستقبل کی تحقیق (Future Research on Proxima Centauri)
پروکسیما سینٹوری اور اس کے سیاروں پر تحقیق ابھی بھی جاری ہے۔ فلکیات دان مزید جدید خلائی دوربینوں (Space Telescopes) اور مشاہداتی آلات کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ پروکسیما سینٹوری کے گرد مزید سیاروں کو دریافت کیا جا سکے اور پروکسیما بی جیسے سیاروں پر زندگی کے امکانات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
مستقبل میں مزید مشن جیسے کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلیسکوپ (James Webb Space Telescope) اور دیگر جدید آلات سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہمیں پروکسیما سینٹوری اور اس کے گرد موجود سیاروں کی فضا، درجہ حرارت، اور زندگی کے امکانات کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔
پروکسیما سینٹوری کی دریافت نے فلکیات کی دنیا میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا ہے۔ یہ ستارہ نہ صرف ہمارا قریب ترین فلکیاتی ہمسایہ ہے، بلکہ اس کے گرد گردش کرنے والے سیارے ممکنہ طور پر زندگی کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پروکسیما سینٹوری کے فلیئرز ممکنہ زندگی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، لیکن جدید سائنسی تحقیق سے ہمیں اس ستارے اور اس کے سیاروں کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ مستقبل میں مزید تحقیق کے ذریعے ہم اس بات کے قریب پہنچ سکتے ہیں کہ آیا پروکسیما بی یا اس جیسے دیگر سیارے واقعی زندگی کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں۔
محمد شہاب
حوالہ جات: NASA, Space.com, Scientific American
یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔