حیاتیات اور ٹیکنالوجی کے درمیان ایک نئی اور حیرت انگیز دریافت نے سائنسدانوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ Biobots نامی جانداروں کو تیار کریں، جو نہ تو مکمل طور پر زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ۔ یہ نئی حالت، جسے سائنسدان “تیسری حالت” قرار دے رہے ہیں، زندگی اور موت کے درمیان ایک منفرد مرحلہ ہے۔ اس تحقیق کا مقصد زندہ اور مردہ خلیات کو ملا کر ایسی مخلوقات بنانا تھا جو غیر متوقع طور پر نئے افعال سر انجام دے سکیں۔ ان Biobots نے خلیاتی رویوں کو چیلنج کیا ہے اور سائنسدانوں کے سامنے نئے سوالات رکھ دیے ہیں۔
Xenobots، جو مردہ frog embryos کے خلیات سے بنائے گئے ہیں، خود کو منظم کرنے، نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے، اور خود کو دوبارہ تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف اپنے طے شدہ حیاتیاتی افعال سے آگے بڑھ کر کام کر رہے ہیں، بلکہ ان کی نقل اور حرکت بھی منفرد ہے۔ سائنسدانوں نے یہ دیکھا کہ یہ Biobots جسم میں موجود چھوٹے بالوں جیسے cilia کا استعمال کر کے حرکت کرتے ہیں، اور بعض اوقات اپنے ماحول میں دوسرے خلیات کو بھی متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ nerve cells کو مرمت کرنا۔
یہ نئی مخلوقات نہ صرف اپنی جسمانی ساخت کو تبدیل کرتی ہیں، بلکہ اپنے ماحول میں بھی تبدیلیاں لاتی ہیں۔ اس “تیسری حالت” کا مطالعہ کرتے ہوئے، سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خلیات کو موت کے بعد بھی دوبارہ فعال بنایا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب انہیں مخصوص nutrients, bioelectricity, اور biochemical cues فراہم کیے جائیں۔ یہ تمام عوامل خلیات کو نئے افعال سر انجام دینے کی اجازت دیتے ہیں، جو ان کے حیاتیاتی کردار سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں یہ بھی شامل ہے کہ Biobots مستقبل میں کیسے استعمال کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ انسانی جسم میں دوائیں پہنچانے، یا arterial plaque کو صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ خلیات نہ صرف خود کو مرمت کر سکتے ہیں، بلکہ جسم میں موجود بیماریوں کے علاج میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
تیسری حالت کی دریافت سائنسدانوں کو ایک نیا حیاتیاتی نظریہ فراہم کرتی ہے کہ زندگی اور موت کے بعد بھی خلیات نئے افعال سر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ تحقیق طبی میدان میں regenerative medicine اور زندگی کے حیاتیاتی حدود کو سمجھنے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
شہباز آصف
حوالہ جات: BGR.com, TweakTown, Earth.com
یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔