ڈارک میٹر (Dark Matter) وہ پراسرار مادہ ہے جسے کائنات کا “پوشیدہ گلو” سمجھا جاتا ہے۔ یہ مادہ ہمارے ارد گرد موجود ہے، لیکن ہم اسے براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ سائنسدان کئی دہائیوں سے اس مادے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ یہ کائنات کے بہت سے اہم پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے، جیسے کہ کہکشاؤں کی حرکت اور کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار۔
کائنات کا تجزیہ کرتے وقت، سائنسدانوں نے محسوس کیا کہ کہکشاؤں کی گردش اور حرکت میں کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ توقع کرتے تھے کہ کہکشائیں اپنی کمیت کے مطابق حرکت کریں گی، لیکن کہکشاؤں کے کناروں پر ستارے اتنی تیزی سے گھومتے تھے کہ انہیں بکھر جانا چاہیے تھا۔ اس نے یہ خیال پیدا کیا کہ کائنات میں ایک ایسا مادہ موجود ہے جو نظر نہیں آتا لیکن اس کی کشش ثقل کی طاقت کہکشاؤں کو اکٹھا رکھتی ہے۔ اسے ڈارک میٹر کہا جاتا ہے۔
ڈارک میٹر کا تصور پہلی بار 1930 کی دہائی میں فریٹز زویکی (Fritz Zwicky) نامی ایک سوئس ماہر فلکیات نے پیش کیا۔ زویکی نے دیکھا کہ کہکشاؤں کے مجموعوں کی حرکات ان کی ظاہری کمیت سے زیادہ تھیں، اور انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی پوشیدہ مادہ موجود ہونا چاہیے۔ لیکن، اسے ثابت کرنا ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔
ڈارک میٹر کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ روشنی یا برقی مقناطیسی شعاعوں کے ساتھ تعامل نہیں کرتا، اس لیے ہم اسے براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ یہ صرف اپنی کشش ثقل کے ذریعے دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے، یعنی ہم اس کا وجود اس کے کشش ثقل کے اثرات سے جان سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ کائنات کی تقریباً 27% کمیت ڈارک میٹر پر مشتمل ہے، جبکہ نظر آنے والا مادہ صرف 5% ہے۔
ڈارک میٹر کی نوعیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ کچھ نظریات کے مطابق، یہ نئی قسم کے ذرات سے بنا ہے جو ہماری موجودہ فزکس کی سمجھ سے باہر ہیں، جبکہ کچھ سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کشش ثقل کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔
ڈارک میٹر کی تلاش کے لیے تجربات
ڈارک میٹر کا سراغ لگانے کے لیے دنیا بھر میں کئی تجربات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تجربات زیر زمین لیبارٹریوں میں کیے جاتے ہیں تاکہ زمین کی سطح پر موجود ذرات اور تابکاری سے بچا جا سکے۔
1. لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل-ویو آبزرویٹری (LIGO)
LIGO کا مقصد کشش ثقل کی لہروں کا مشاہدہ کرنا ہے، جو ڈارک میٹر کے ذرات کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔ کشش ثقل کی لہریں کائنات کے دور دراز حصوں سے آتی ہیں اور ہمیں اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ وہاں کون سے عوامل کام کر رہے ہیں۔
2. ایکس ایم اے ایس (XENON Experiment)
یہ تجربہ اٹلی کے گرین ساسو لیبارٹری میں ہو رہا ہے۔ اس کا مقصد ایک انتہائی حساس ڈیٹیکٹر کے ذریعے ڈارک میٹر کے ذرات کا براہ راست سراغ لگانا ہے۔ سائنسدان توقع کرتے ہیں کہ جب ڈارک میٹر کے ذرات اس ڈیٹیکٹر سے ٹکرائیں گے، تو وہ معمولی روشنی پیدا کریں گے، جسے دیکھا جا سکے گا۔
3. سرن کا Large Hadron Collider (LHC)
دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور پارٹیکل کولائیڈر، LHC میں ڈارک میٹر کے ذرات کی تخلیق کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ LHC کے ذریعے پروٹان کو انتہائی توانائیوں کے ساتھ ٹکرایا جاتا ہے، جس سے ایسے ذرات پیدا ہو سکتے ہیں جو ہماری کائنات میں موجود بنیادی ذرات کی تفصیل فراہم کر سکتے ہیں۔
ڈارک میٹر اور کائنات کی تشکیل
ڈارک میٹر کا سب سے اہم کردار کائنات کی تشکیل میں ہے۔ کائنات کے ابتدائی دنوں میں ڈارک میٹر نے کہکشاؤں اور دیگر عظیم ساختوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کشش ثقل کے ذریعے گیس اور دوسرے مادوں کو اکٹھا کرتا ہے، جس سے ستارے اور کہکشائیں بنتی ہیں۔
ڈارک میٹر کائنات کے پھیلاؤ پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کائنات تیزی سے پھیل رہی ہے، اور اس پھیلاؤ کی رفتار میں اضافے کا سبب ڈارک انرجی (Dark Energy) ہے۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی مل کر کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو متوازن رکھتے ہیں۔
سائنسدان ڈارک میٹر کی نوعیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی حتمی جواب نہیں ملا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈارک میٹر ایک نیا Weakly Interacting Massive Particles (WIMPs) قسم کا ذرہ ہو سکتا ہے، جبکہ دوسرے سائنسدان Axions یا Sterile Neutrinos کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
ایک اور دلچسپ نظریہ یہ ہے کہ ڈارک میٹر دراصل کوانٹم مکینکس کی ایک مظہر ہو سکتا ہے، اور یہ کہ کائنات کے پوشیدہ ذرات کے ساتھ کوئی تعلق ہو سکتا ہے جو ہماری موجودہ فزکس سے مختلف ہیں۔
ڈارک میٹر کا معمہ ابھی تک سائنسدانوں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے، اور اس کی تلاش جاری ہے۔ یہ مادہ کائنات کے بہت سے اہم سوالات کے جوابات فراہم کر سکتا ہے، جیسے کہ کہکشاؤں کی حرکت، ستاروں کی تشکیل اور کائنات کا پھیلاؤ۔ سائنسدانوں کی کوششیں جاری ہیں کہ وہ اس پراسرار مادے کی نوعیت کو سمجھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ یہ کائنات میں کیسے کام کرتا ہے۔
محمد عفان
حوالہ جات: en.wikipedia.org , TV Maze Documentaries
یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔