کریٹیشس دور کے پرندے اور ان کے شکاری پنجے: کیا یہ ہاکس اور اولز کے آباؤ اجداد تھے؟

prehistoric bird
Reading Time: 2 minutes

کریٹیشس دور میں پائے جانے والے Avisaurid پرندے، جن کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آئی ہے، ممکنہ طور پر جدید hawks اور owls کی طرح شکار کرتے تھے۔ سائنسدانوں نے حالیہ تحقیق میں ان پرندوں کے فوسلز دریافت کیے ہیں جو طاقتور پنجوں اور شکاری خصوصیات کے حامل تھے، بالکل جیسے آج کے شکاری پرندے ہوتے ہیں۔ یہ پرندے تقریباً 70 سے 66 ملین سال قبل شمالی امریکہ کے علاقے میں رہتے تھے۔

North America During the Late Cretaceous
Map of North America During the Late Cretaceous

یہ پرندے، جنہیں Enantiornithes کہا جاتا ہے، اپنی بڑی جسامت اور مضبوط پنجوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے، اور یہ پنجے انہیں بڑے شکار جیسے چھوٹے dinosaurs کو اٹھانے میں مدد دیتے تھے۔ محققین نے ان کے پنجوں کی ساخت کا تجزیہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پنجے آج کے شکاری پرندوں جیسے تھے، جو شکار کو زمین سے اٹھانے اور ہوا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ نئی تحقیق Hell Creek Formation سے ملی باقیات پر مبنی ہے، جو کہ ایک معروف جیولوجیکل خطہ ہے جہاں سے پہلے بھی T. rex جیسے مشہور ڈائنوسار کے فوسلز ملے ہیں۔ ان Avisaurid پرندوں کی باقیات کا مطالعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ پرندے شکاری پرندوں کے ارتقاء کی ابتدائی مثالیں ہو سکتے ہیں، جو جدید پرندوں کی طرح ہوا میں بلند ہو کر شکار کرتے تھے۔

یہ پرندے اپنے وقت کے بڑے شکاریوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کا جسمانی ڈھانچہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ چھوٹے جانوروں، رینگنے والے جانداروں، اور شاید چھوٹے ڈائنوسار کو اپنا شکار بناتے تھے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ پرندے رات کے وقت یا صبح کے وقت فعال رہتے تھے، بالکل جیسے آج کے owls یا hawks ہوتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان پرندوں کے پنجے اور جسمانی ڈھانچہ شکاری صلاحیتوں کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کیے گئے تھے، جو انہیں اپنے دور کے دوسرے پرندوں سے ممتاز بناتے تھے۔ اس تحقیق نے پرندوں کی ارتقائی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا ہے اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آج کے شکاری پرندے ممکنہ طور پر اسی حیاتیاتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

طلحہ مبشر اعوان

حوالہ جات: Sci.News , ScienceDaily

یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف معتبر ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس آرٹیکل کو کہیں اور شائع کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم، اگر آپ اسے “اردو سائنس میگزین” کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مکمل اجازت ہے۔ اس مضمون کو استعمال کرتے وقت مواد کے اصل مقصد اور ماخذ کو لازمی طور پر تسلیم کریں تاکہ معلومات کی درستگی اور حقوقِ تصنیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *