21 اگست 1986 کو مغربی افریقی ملک کیمرون کے ایک گاؤں میں ایک پراسرار اور المناک واقعہ پیش آیا جسے آج “لیک نیوس سانحہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سانحے میں راتوں رات تقریباً 1,700 سے 1,800 لوگ سوتے میں دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔ ان کے ساتھ ساتھ تقریباً 3,000 مویشی، پرندے، اور دیگر جاندار بھی ہلاک ہوئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان ہلاکتوں کی کوئی واضح وجہ فوری طور پر سمجھ میں نہ آئی۔ لوگوں کے جسموں پر کوئی چوٹ کے نشان یا جدوجہد کے آثار موجود نہیں تھے، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ اپنی جگہ پر اچانک ہی دم توڑ گئے
یہ سانحہ ایک جھیل کے پاس پیش آیا جسے لیک نیوس کہا جاتا ہے۔ لیک نیوس ایک آتش فشانی جھیل ہے، جو زمین کے اندر ہونے والے آتش فشانی عمل کی وجہ سے وجود میں آئی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جھیل کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO₂) جمع ہوگئی تھی اور ایک غیر متوقع لمحے میں اچانک خارج ہوگئی۔ اس واقعے کو “لمبک ایرپشن” (Limnic Eruption) کہا جاتا ہے، جو ایک نایاب قدرتی مظہر ہے جس میں آتش فشانی جھیل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔
اس رات جھیل کے نیچے جمع شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ تقریباً 1.6 ملین ٹن کی مقدار میں ایک دھماکے کے ساتھ خارج ہوئی۔ دھماکہ کے نتیجے میں ایک بڑا گیس کا بادل جھیل سے نکل کر ہوا میں پھیل گیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ چونکہ ایک بھاری گیس ہے، اس لیے یہ زمین کے قریب ہی پھیلی رہی اور ارد گرد کے گاؤں اور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سانس لینے کے قابل ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار نے آکسیجن کو بے دخل کر دیا، جس کی وجہ سے لوگ سوتے ہوئے دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے
ابتدائی تحقیقات میں یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگ ایک ہی رات میں کیسے ہلاک ہو گئے۔ علاقے میں موجود لوگوں کو آنکھوں اور ناک میں جلن، کھانسی، اور سانس رکنے جیسی علامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہسپتالوں میں لائے گئے لوگوں کے جسموں پر جلد کے زخم اور سوجن کی نشاندہی کی گئی۔
جب سائنسدانوں نے مزید تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ جھیل کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جمع ہو کر ایک مہلک جال بن چکی تھی۔ جھیل کی گہرائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جمع شدہ مقدار نے بلند دباؤ کی وجہ سے سطح کے نیچے ایک خطرناک ماحول بنا لیا تھا۔ جیسے ہی کوئی بیرونی عمل، جیسے آتش فشانی سرگرمی، زلزلہ، یا زمینی تودے کے گرنے سے اس جھیل میں خلل پیدا ہوا، تو گیس نے اچانک سطح پر نکلنے کا راستہ بنا لیا۔ اس کے نتیجے میں جھیل سے گیس کا بادل پھوٹا اور قریبی گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
سانحے کے بعد، بین الاقوامی ماہرین نے ایسے واقعات کے دوبارہ پیش آنے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے جھیل میں ڈی گیسنگ ٹیوبز نصب کیں، جن کا مقصد جھیل کی گہرائی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرولڈ طریقے سے خارج کرنا تھا تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر نکل کر نقصان نہ پہنچا سکے۔ 1995 سے شروع ہونے والے اس عمل میں، مستقل طور پر جھیل سے گیس کو خارج کیا جانے لگا، اور 2001 میں پہلی مستقل ڈی گیسنگ ٹیوب نصب کی گئی۔ اس کے بعد 2011 میں مزید دو ٹیوبز نصب کی گئیں۔ ان اقدامات کی بدولت جھیل میں گیس کی مقدار کو ایک محفوظ سطح پر برقرار رکھا جا رہا ہے
Related Post: زلزلے کی لہروں اور زمین کے مینٹل کی عجیب خصوصیات کا تعلق
لیک نیوس کے اس سانحے نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو قدرتی آفات کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کی۔ اس واقعے کے بعد سائنسدانوں نے دیگر آتش فشانی جھیلوں جیسے لیک کیوو (Lake Kivu) کی نگرانی بھی شروع کی تاکہ ایسے ممکنہ خطرات کو پہلے سے پہچانا جا سکے اور ان کے سدباب کے لیے مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔ لیک نیوس سانحہ ایک افسوسناک اور پراسرار واقعہ تھا، جس نے دنیا بھر میں زلزلوں، آتش فشانی سرگرمیوں، اور دیگر قدرتی آفات کی تحقیق میں نیا موڑ پیدا کیا۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زمین کی اندرونی سرگرمیاں نہ صرف ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں بلکہ ان کا صحیح علم اور ان کی نگرانی ہی ہمیں مستقبل کی آفات سے بچا سکتی ہے۔
وقاص مصطفیٰ
( یہ مضمون عمومی معلومات پر مبنی ہے، اور اس کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے گئے ہیں۔ تاکہ اس موضوع پر جامع اور قابل اعتماد مواد پیش کیا جا سکے۔ )
حوالہ جات: britannica.com , wikipedia.org