جون 2024 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آئی، جب Nvidia نے اپنی مارکیٹ ویلیو کو 3.01 ٹریلین ڈالر تک پہنچا کر Apple کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی دوسری سب سے قیمتی کمپنی بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کامیابی کے پیچھے AI (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی اور Nvidia کی اس شعبے میں نمایاں پوزیشن کارفرما ہے۔ AI کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور Nvidia کی اسمارٹ چپس نے کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں 147% اضافہ کیا ہے۔
Nvidia کی مارکیٹ ویلیو میں یہ غیر معمولی اضافہ AI چپس کی زبردست مانگ کی وجہ سے ہوا ہے۔ سال 2024 میں، Nvidia کے اسٹاک کی قیمت میں حیرت انگیز 147% اضافہ ہوا، جس نے اسے ٹریلین ڈالر کی کلب میں داخل کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ AI ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے انتہائی تیز اور مؤثر پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے Nvidia کے GPUs بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ ان GPUs کو تیار کرنے میں Nvidia کی مہارت نے اسے مارکیٹ میں منفرد حیثیت دے رکھی ہے۔
نومبر 2022 میں جب OpenAI نے ChatGPT کو عوام کے لیے جاری کیا، تب Nvidia کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 400 ارب ڈالر تھی۔ لیکن جیسے ہی AI ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوا، Nvidia کے اسٹاک کی قیمت بھی تیزی سے بڑھی۔ بڑی کمپنیاں جیسے Meta، Alphabet، Amazon، اور Microsoft اپنی AI کمپیوٹنگ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے Nvidia کے AI-enabling GPU chips خرید رہی ہیں، جس کی وجہ سے Nvidia کے اسٹاک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ Apple کی اپنی مارکیٹ ویلیو 3.003 ٹریلین ڈالر تک ہے، لیکن پچھلے سالوں میں AI میں خاطر خواہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے اس کی اسٹاک ویلیو میں اتنا اضافہ نہیں ہو سکا جتنا Nvidia کی ویلیو میں ہوا۔ Apple کے اسٹاک میں 2024 کے دوران صرف 2% اضافہ ہوا، جبکہ Nvidia کی ویلیو میں غیرمعمولی 147% کا اضافہ ہوا۔
Apple کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی اہم ہے کہ Nvidia اب AI ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے اور مختلف کمپنیوں کو AI سے متعلقہ مصنوعات تیار کرنے کے لیے اپنی چپس فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، Nvidia نے Microsoft جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی اپنی مصنوعات کی فراہمی شروع کر دی ہے، جو Nvidia کی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
Nvidia کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کا AI چپس کے میدان میں غلبہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، Nvidia کی ڈیزائن کردہ چپس AI کی نئی ٹیکنالوجیز کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہیں، اور AI مارکیٹ کی تقریباً 80% ڈیمانڈ انہی چپس کی ہوتی ہے۔
Nvidia کی CUDA پلیٹ فارم کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے Apple کے iOS کی طرح کا ایک ناقابل تسخیر موٹ (moat) سمجھا جا رہا ہے۔ Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (Jensen Huang) کا کہنا ہے کہ AI اور کمپیوٹنگ میں ان کی کمپنی کی مسلسل جدت نے مارکیٹ میں ان کی پوزیشن کو مضبوط کر دیا ہے۔
AI مارکیٹ کی موجودہ صورتحال اور Nvidia کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، 2030 تک Nvidia کی مارکیٹ ویلیو 10 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ تخمینہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ AI مارکیٹ مستقبل میں اور بھی تیزی سے بڑھے گی، اور Nvidia اس میدان میں سب سے آگے ہوگی۔
Nvidia کے GPUs اور چپس کی تیز رفتاری اور طاقت نے AI کی ایپلیکیشنز کو ممکن بنایا ہے، جن میں مشین لرننگ، ڈیٹا پروسیسنگ، اور گرافک ڈیزائن شامل ہیں۔ Nvidia نے اپنے جدید پروسیسرز کی نئی جنریشن بھی متعارف کروائی ہے، جس کی وجہ سے AI پلیٹ فارمز میں تیزی اور مؤثریت میں اضافہ ہوا ہے۔
Nvidia کا Apple کو پیچھے چھوڑ کر دوسری سب سے بڑی کمپنی بننا نہ صرف ٹیکنالوجی مارکیٹ کے لیے اہم ہے بلکہ سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک بڑا اشارہ ہے۔ Nvidia کی مارکیٹ ویلیو میں اضافے نے اس کے شیئر ہولڈرز کو بھی بڑے منافع فراہم کیے ہیں۔
Nvidia کی اسٹاک اسپلٹ (Stock Split) بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کمپنی اپنے اسٹاک کو زیادہ سرمایہ کاروں کی پہنچ میں لانا چاہتی ہے۔ اس سے نہ صرف موجودہ سرمایہ کاروں کو فائدہ ہوگا بلکہ نئے سرمایہ کار بھی Nvidia کے اسٹاک خریدنے میں دلچسپی دکھا سکتے ہیں۔
Nvidia کی یہ شاندار کامیابی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ AI مارکیٹ کس قدر اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ AI چپس اور پروسیسرز کے میدان میں Nvidia کی برتری نے اسے نہ صرف Apple بلکہ دیگر بڑی کمپنیوں جیسے Amazon اور Google کو بھی پیچھے چھوڑنے میں مدد دی ہے۔
اگرچہ Apple ابھی بھی اپنے AI فیچرز کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن فی الحال Nvidia AI ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے۔ اس کے علاوہ، AI میں سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی Nvidia کو مزید ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو Nvidia کی مارکیٹ ویلیو آنے والے سالوں میں مزید بڑھنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
انصار عادل شاہ
( یہ مضمون عام معلومات پر مبنی ہے اور اسے مختلف ذرائع سے لیا گیا ہے تاکہ اس موضوع پر مکمل اور بھروسے مند معلومات فراہم کی جا سکیں۔ )
حوالہ: BBC News , Business Insider , Forbes